Description
سنہ ۲۰۰۲ء میں،اپنی پہلی ہجرت کے تقریباً پچاس سال بعد، ایک محفوظ گھر کی تلاش میں دنیا کا سفر کرتے کرتے ،عظمت اشرف اپنے خاندان کے ساتھ اونٹاریو، کینیڈا میں آباد ہو گئے۔ کینیڈا میں ان کے بڑھتے ہوئے خاندان میں اُن کی شریک حیات، تین بیٹیاں، ان کے شوہر اور تین پیاری نواسیاں شامل ہیں۔ وہ پڑھنے اور سفر کرنے کا غیر معمولی شوق رکھنے کے علاوہ ایک ابدی امید پرست بھی ہیں جو انسانیت کی اعلیٰ اقدار پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔
ایک خون ریز اورپرتشدد جدوجہدکے بعد۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان، بنگلہ دیش کی آزاد ریاست بن گیا۔گو کہ بہت سے لوگ اس تنازع کی لپیٹ میں آئے ، لیکن اس میں سب سے زیادہ قربانیاں اُس برادری نے دی جو ہندوستان کی تقسیم کے وقت ریاستِ بہار سے فرار ہو کر مشرقی پاکستان پہنچی تھی۔
عظمت اشرف، جو خود بھی بہاری نژاد ہیں، ایک سال کے تھے جب اُن کا خاندان ۱۹۵۳ء میں اپنی حفاظت اور بہتر مستقبل کے لیے ہندوستان سے ہجرت کرکے مشرقی پاکستان پہنچا ۔ لیکن پھر دو دہائیوں سے بھی کم عرصے میں ، اپنے لیے ایک اچھے طرز زندگی کے حصول کے بعد، بنگلہ دیش کی ہنگامہ خیز پیدائش کے دوران عظمت کے خاندان کو لسانی اور گروہی بنیادوں پر ہدف بنایا گیا۔ قتل و غارت کے مختلف واقعات میں اُن کے خاندان کے بیشتر افرادشہید ہو گئے ۔
یہ کتاب ناقابل تصوّر سانحات کے تسلسل کے بعد، ایک خاندان کی اپنی بقا اور تعمیر نو کے لیے کی جانے والی جدوجہد کی یادگار ہے۔ یہ کہانی انسانی لچک، حقیقی محبت اور سچی دوستی سے عبارت ہے۔ یہ ہر جگہ اور ہر دور کے پناہ گزینوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ایک تحریک ہے جو سلامتی اور خوشحالی کے مقامات تلاش کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔
عظمت اور ان کے خاندان پر گزرنے والے مصائب کے باوجود، انہوں نے ۱۹۷۱ء کے واقعات کے ضمن میں ایک متوازن نقطہ نظر پیش کرنے کے لیے بڑی احتیاط سے کام لیا ہے تاکہ پاکستانی اور بنگلہ دیشی بالخصوص اور برصغیر کے لوگ بالعموم اپنی باہمی تاریخ کے اس دردناک دور کو درست طور پر سمجھ سکیں۔
Reviews
There are no reviews yet.